امید

مقابلہ تو زمانے کا خوب کرتا ہوں 
اگرچہ میں نہ سپاہی ہوں نے امیر جنود 

مجھے خبر نہیں یہ شاعری ہے یا کچھ اور 
عطا ہوا ہے مجھے ذکر و فکر و جذب و سرود 

جبین بندۂ حق میں نمود ہے جس کی 
اسی جلال سے لبریز ہے ضمیر وجود 

یہ کافری تو نہیں ، کافری سے کم بھی نہیں 
کہ مرد حق ہو گرفتار حاضر و موجود 

غمیں نہ ہو کہ بہت دور ہیں ابھی باقی 
نئے ستاروں سے خالی نہیں سپہر کبود