بانگِ درا
مکمل تحریر اور تبصرے>>

فہرست


حصہ اول

ہمالہ 
گل رنگیں 
عہد طفلی 
مرزا غالب 
ابر کوہسار
ایک مکڑا اور مکھی 
ایک پہاڑ اور گلہری 
ایک گائے اور بکری 
بچے کی دعا 
ہمدردی 
ماں کا خواب 
پرندے کی فریاد 
خفتگان خاک سے استفسار 
شمع و پروانہ 
عقل و دل 
صدائے درد 
آفتاب 
شمع 
ایک آرزو 
آفتاب صبح 
درد عشق 
گل پژمردہ 
سیدکی لوح تربت 
ماہ نو 
انسان اور بزم قد رت
پیا م صبح 
عشق اور موت 
ز ہد اور رندی 
شاعر 
دل 
مو ج دریا 
رخصت اے بزم جہاں 
طفل شیر خوار 
تصویر درد 
نا لۂ فراق 
چاند 
بلال 
سر گزشت آدم 
ترانۂ ہندی 
جگنو 
صبح کا ستارہ 
ہندوستانی بچوں کا قومی گیت 
لاہور و کراچی 
نیا شوالا 
داغ 
ابر 
ایک پرندہ اور جگنو 
بچّہ اور شمع 
کنار راوی 
التجائے مسافر 
غز لیات 


حصہ دوم


محبت 
حقیقت حسن 
سوامی رام تیر تھ 
طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام 
اختر صبح 
حسن و عشق 
ــــــــ کی گود میں بلی دیکھ کر 
کلی 
چاند اور تارے 
وصال 
سلیمی 
عاشق ہر جائی 
کوشش نا تمام 
نوائے غم 
عشر ت امروز 
انسان 
جلوۂ حسن 
ایک شام 
تنہائی 
پیام عشق 
فراق 
عبد القادر کے نام 
صقلیہ 
غزلیات 


حصہ سوم



بلاد اسلامیہ 
ستارہ 
دوستارے 
گورستان شاہی 
نمود صبح 
تضمین بر شعر انیسی شاملو 
پھول کا تحفہ عطا ہونے پر 
ترانۂ ملی 
وطنیت 
ایک حاجی مدینے کے راستے میں 
قطعہ 
شکوہ 
چاند 
رات اور شاعر 
بزم انجم 
سیر فلک 
نصیحت 
رام 
موٹر 
انسان 
خطاب بہ جوانان اسلام 
غرۂ شوال 
شمع اور شاعر 
مسلم 
حضور رسالت مآب میں 
شفاخانۂ حجاز 
جواب شکوہ 
ساقی 
تعلیم اور اس کے نتائج 
قرب سلطان 234
شاعر 
نو ید صبح 
دعا 
عید پر شعر لکھنے کی فرمائش کے جواب میں 
فاطمہ بنت عبداللہ 
شبنم اور ستارے 
محاصرۂ درنہ 
غلام قادر رہیلہ 
ایک مکالمہ 
میں اورتو 
تضمین بر شعر ابوطالب کلیم 
شبلی و حالی 
ارتقا 
صدیق 
تہذیب حاضر 
والدہ مرحومہ کی یاد میں 
شعاع آفتاب 
عرفی 
ایک خط کے جواب میں 
نانک 
کفر واسلام 
بلال 
مسلمان اور تعلیم جدید 
پھولوں کی شہزادی 
تضمین بر شعر صائب 
فردوس میں ایک مکالمہ 
مذہب 
جنگ یر موک کا ایک واقعہ 
مذہب 
پیوستہ رہ شجر سے ، امید بہار رکھ! 
شب معراج 
پھول 
شیکسپیر 
میں اورتو 
اسیری 
دریوزۂ خلافت 
ہمایوں 
خضرِ راہ 
طلوع اسلام 
غزلیات 
ظر یفانہ
مکمل تحریر اور تبصرے>>



حصہ اول
مکمل تحریر اور تبصرے>>

اے ہمالہ


اے ہمالہ! اے فصيل کشور ہندوستاں
 چومتا ہے تيري پيشاني کو جھک کر آسماں

 تجھ ميں کچھ پيدا نہيں ديرينہ روزي کے نشاں
 تو جواں ہے گردش شام و سحر کے درمياں

 ايک جلوہ تھا کليم طور سينا کے ليے
 تو تجلي ہے سراپا چشم بينا کے ليے

 امتحان ديدئہ ظاہر ميں کوہستاں ہے تو
 پاسباں اپنا ہے تو ، ديوار ہندستاں ہے تو

 مطلع اول فلک جس کا ہو وہ ديواں ہے تو
 سوئے خلوت گاہ دل دامن کش انساں ہے تو

 برف نے باندھي ہے دستار فضيلت تيرے سر
 خندہ زن ہے جو کلاہ مہر عالم تاب پر

 تيري عمر رفتہ کي اک آن ہے عہد کہن
 واديوں ميں ہيں تري کالي گھٹائيں خيمہ زن 

 چوٹياں تيري ثريا سے ہيں سرگرم سخن
 تو زميں پر اور پہنائے فلک تيرا وطن

 چشمہ دامن ترا ئنہ سےال ہے
 دامن موج ہوا جس کے ليے رومال ہے

 ابر کے ہاتھوں ميں رہوار ہوا کے واسطے
 تازيانہ دے ديا برق سر کہسار نے

 اے ہمالہ کوئي بازي گاہ ہے تو بھي ، جسے
 دست قدرت نے بنايا ہے عناصر کے ليے

 ہائے کيا فرط طرب ميں جھومتا جاتا ہے ابر
 فيل بے زنجير کي صورت اڑا جاتا ہے ابر

 جنبش موج نسيم صبح گہوارہ بني
 جھومتي ہے نشہ ہستي ميں ہر گل کي کلي

 يوں زبان برگ سے گويا ہے اس کي خامشي
 دست گلچيں کي جھٹک ميں نے نہيں ديکھي کبھي

 کہہ رہي ہے ميري خاموشي ہي افسانہ مرا
 کنج خلوت خانہ قدرت ہے کاشانہ مرا

 آتي ہے ندي فراز کوہ سے گاتي ہوئي
 کوثر و تسنيم کي موجوں کي شرماتي ہوئي

 آئنہ سا شاہد قدرت کو دکھلاتي ہوئي
 سنگ رہ سے گاہ بچتي ، گاہ ٹکراتي ہوئي

 چھيڑتي جا اس عراق دل نشيں کے ساز کو
 اے مسافر دل سمجھتا ہے تري آواز کو

 ليلي شب کھولتي ہے آ کے جب زلف رسا
 دامن دل کھينچتي ہے آبشاروں کي صدا

 وہ خموشي شام کي جس پر تکلم ہو فدا
 وہ درختوں پر تفکر کا سماں چھايا ہوا

 کانپتا پھرتا ہے کيا رنگ شفق کہسار پر
 خوشنما لگتا ہے يہ غازہ ترے رخسار پر

 اے ہمالہ! داستاں اس وقت کي کوئي سنا
 مسکن آبائے انساں جب بنا دامن ترا

 کچھ بتا اس سيدھي سادي زندگي کا ماجرا
 داغ جس پر غازئہ رنگ تکلف کا نہ تھا

 ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
 دوڑ پيچھے کي طرف اے گردش ايام تو
مکمل تحریر اور تبصرے>>

گل رنگیں


تو شناسائے خراش عقدۂ مشکل نہیں
اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں 

زیب محفل ہے ، شریک شورش محفل نہیں 
یہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیں 

اس چمن میں میں سراپا سوز و ساز آرزو 
اور تیری زندگانی بے گداز آرزو 

توڑ لینا شاخ سے تجھ کو مرا آئیں نہیں 
یہ نظر غیر از نگاہ چشم صورت بیں نہیں 

آہ! یہ دست جفاجو اے گل رنگیں نہیں 
کس طرح تجھ کو یہ سمجھاؤں کہ میں گلچیں نہیں 

کام مجھ کو دیدۂ حکمت کے الجھیڑوں سے کیا 
دیدۂ بلبل سے میں کرتا ہوں نظارہ ترا 

سو زبانوں پر بھی خاموشی تجھے منظور ہے 
راز وہ کیا ہے ترے سینے میں جو مستور ہے 

میری صورت تو بھی اک برگ ریاض طور ہے 
میں چمن سے دور ہوں تو بھی چمن سے دور ہے 

مطمئن ہے تو ، پریشاں مثل بو رہتا ہوں میں 
زخمی شمشیر ذوق جستجو رہتا ہوں میں 

یہ پریشانی مری سامان جمعیت نہ ہو 
یہ جگر سوزی چراغ خانہ حکمت نہ ہو 

ناتوانی ہی مری سرمایۂ قوت نہ ہو 
رشک جام جم مرا آ یئنۂ حیرت نہ ہو 

یہ تلاش متصل شمع جہاں افروز ہے 
توسن ادراک کو انسان خرام آموز ہے
مکمل تحریر اور تبصرے>>

عہد طفلی


تھے دیار نو زمین و آسماں میرے لیے 
وسعت آغوش مادر اک جہاں میرے لیے 

تھی ہر اک جنبش نشان لطف جاں میرے لیے 
حرف بے مطلب تھی خود میری زباں میرے لیے 

درد ، طفلی میں اگر کوئی رلاتا تھا مجھے 
شورش زنجیر در میں لطف آتا تھا مجھے 

تکتے رہنا ہائے! وہ پہروں تلک سوئے قمر 
وہ پھٹے بادل میں بے آواز پا اس کا سفر 

پوچھنا رہ رہ کے اس کے کوہ و صحرا کی خبر 
اور وہ حیرت دروغ مصلحت آمیز پر 

آنکھ وقف دید تھی ، لب مائل گفتار تھا 
دل نہ تھا میرا ، سراپا ذوق استفسار تھا

مکمل تحریر اور تبصرے>>

مرزا غالب



فکرِ انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا
ہے پر مرغِ تخیل کی رسائی تا کجا

تھا سراپا روح تُو ، بزمِ سخن پیکر ترا
زیبِ محفل بھی رہا محفل سے پنہاں بھی رہا

دید تیری آنکھ کو اُس حسن کی منظور ہے
بن کے سوزِ زندگی ہر شے میں جو مستور ہے

محفل ہستی تری بربط سے ہے سرمایہ دار
جس طرح ندی کے نغموں سے سکوتِ کوہسار

تیرے فردوسِ تخیل سے ہے قدرت کی بہار
تیری کشتِ فکر سے اُگتے ہیں عالم سبزہ وار

زندگی مضمر ہے تیری شوخئ تحریر میں
تابِ گویائی سے جنبش ہے لبِ تصویر میں

نطق کو سو ناز ہیں تیرے لبِ اعجاز پر
محوِ حیرت ہے ثریا رفعتِ پرواز پر

شاہد مضموں تصدق ہے ترے انداز پر
خندہ زن ہے غنچۂ دلی گُل شیراز پر

آہ! تو اجڑی ہوئی دِلی میں آرامیدہ ہے
گلشنِ ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے

لطف گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکرِ کامل ہم نشیں

ہائے! اب کیا ہو گئی ہندوستاں کی سر زمیں
آہ! اے نظارہ آموزِ نِگاہِ نکتہ بیں

گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دل سوزئ  پروانہ ہے

اے جہان آباد! اے گہوارۂ عِلم و ہُنر
ہیں سراپا نالۂ خاموش تیرے بام و در

ذرے ذرے میں ترے خوابیدہ ہیں شمس و قمر
یوں تو پوشیدہ ہیں تیری خاک میں لاکھوں گہر

دفن تجھ میں کوئی فخرِ روزگار ایسا بھی ہے؟
تجھ میں پنہاں کوئی موتی آب دار ایسا بھی ہے؟

مکمل تحریر اور تبصرے>>

ابر کوہسار




ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا
ابر کہسار ہوں گل پاش ہے دامن میرا

کبھی صحرا ، کبھی گلزار ہے مسکن میرا
شہر و ویرانہ مرا ، بحر مرا ، بن میرا

کسی وادی میں جو منظور ہو سونا مجھ کو
سبزۂ کوہ ہے مخمل کا بچھونا مجھ کو

مجھ کو قدرت نے سکھایا ہے در افشاں ہونا
ناقۂ شاہد رحمت کا حدی خواں ہونا

غم زدائے دل افسردۂ دہقاں ہونا
رونق بزم جوانان گلستاں ہونا

بن کے گیسو رخ ہستی پہ بکھر جاتا ہوں
شانۂ موجۂ صرصر سے سنور جاتا ہوں

دور سے دیدۂ امید کو ترساتا ہوں
کسی بستی سے جو خاموش گزر جاتا ہوں

سیر کرتا ہوا جس دم لب جو آتا ہوں
بالیاں نہر کو گرداب کی پہناتا ہوں

سبزۂ مزرع نوخیز کی امید ہوں میں
زادۂ بحر ہوں پروردۂ خورشید ہوں میں

چشمۂ کوہ کو دی شورش قلزم میں نے
اور پرندوں کو کیا محو ترنم میں نے

سر پہ سبزے کے کھڑے ہو کے کہا قم میں نے
غنچۂ گل کو دیا ذوق تبسم میں نے

فیض سے میرے نمونے ہیں شبستانوں کے
جھونپڑے دامن کہسار میں دہقانوں کے

مکمل تحریر اور تبصرے>>

ایک مکڑا اور مکھی


ماخوذ - بچوں کے لیے

 مکڑا 


اک دن کسی مکھی سے یہ کہنے لگا مکڑا
اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمھارا

لیکن مری کٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت
بھولے سے کبھی تم نے یہاں پاؤں نہ رکھا

غیروں سے نہ ملیے تو کوئی بات نہیں ہے
اپنوں سے مگر چاہیے یوں کھنچ کے نہ رہنا

آؤ جو مرے گھر میں تو عزت ہے یہ میری
وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہو آنا

مکھی نے سنی بات جو مکڑے کی تو بولی
حضرت! کسی نادان کو دیجے گا یہ دھوکا

اس جال میں مکھی کبھی آنے کی نہیں ہے
جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا ، پھر نہیں اترا

مکڑے نے کہا واہ! فریبی مجھے سمجھے
تم سا کوئی نادان زمانے میں نہ ہو گا

منظور تمھاری مجھے خاطر تھی وگرنہ
کچھ فائدہ اپنا تو مرا اس میں نہیں تھا

اڑتی ہوئی آئی ہو خدا جانے کہاں سے
ٹھہرو جو مرے گھر میں تو ہے اس میں برا کیا!

اس گھر میں کئی تم کو دکھانے کی ہیں چیزیں
باہر سے نظر آتا ہے چھوٹی سی یہ کٹیا

لٹکے ہوئے دروازوں پہ باریک ہیں پردے
دیواروں کو آئینوں سے ہے میں نے سجایا

مہمانوں کے آرام کو حاضر ہیں بچھونے
ہر شخص کو ساماں یہ میسر نہیں ہوتا

مکھی نے کہا خیر ، یہ سب ٹھیک ہے لیکن
میں آپ کے گھر آؤں ، یہ امید نہ رکھنا

ان نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے
سو جائے کوئی ان پہ تو پھر اٹھ نہیں سکتا

مکڑے نے کہا دل میں سنی بات جو اس کی
پھانسوں اسے کس طرح یہ کم بخت ہے دانا

سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندا

یہ سوچ کے مکھی سے کہا اس نے بڑی بی !
اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رتبا

ہوتی ہے اسے آپ کی صورت سے محبت
ہو جس نے کبھی ایک نظر آپ کو دیکھا

آنکھیں ہیں کہ ہیرے کی چمکتی ہوئی کنیاں
سر آپ کا اللہ نے کلغی سے سجایا

یہ حسن ، یہ پوشاک ، یہ خوبی ، یہ صفائی
پھر اس پہ قیامت ہے یہ اڑتے ہوئے گانا

مکھی نے سنی جب یہ خوشامد تو پسیجی
بولی کہ نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا

انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں برا میں
سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا

یہ بات کہی اور اڑی اپنی جگہ سے
پاس آئی تو مکڑے نے اچھل کر اسے پکڑا

بھوکا تھا کئی روز سے اب ہاتھ جو آئی
آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اڑایا

مکمل تحریر اور تبصرے>>

ایک پہاڑ اور گلہری


(ماخوذ از ایمرسن)

(بچوں کے لیے)

کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے

ذرا سی چیز ہے ، اس پر غرور ، کیا کہنا
یہ عقل اور یہ سمجھ ، یہ شعور ، کیا کہنا!

خدا کی شان ہے ناچیز چیز بن بیٹھیں
جو بے شعور ہوں یوں باتمیز بن بیٹھیں

تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے
زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے

جو بات مجھ میں ہے ، تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں جانور غریب کہاں!

کہا یہ سن کے گلہری نے ، منہ سنبھال ذرا
یہ کچی باتیں ہیں دل سے انھیں نکال ذرا

جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا
نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا

ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا ، کوئی چھوٹا ، یہ اس کی حکمت ہے

بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اس نے
مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اس نے

قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نری بڑائی ہے ، خوبی ہے اور کیا تجھ میں

جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو

نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
مکمل تحریر اور تبصرے>>

ایک گائے اور بکری


(ماخوذ )بچوں کے لیے



اک  چراگہ  ہری  بھری  تھی کہیں
تھی   سراپا  بہار  جس  کی  زمیں

کیا   سماں   اس  بہار  کا  ہو  بیاں
ہر  طرف  صاف ندیاں تھیں رواں

تھے  اناروں کے بے شمار درخت
اور   پیپل  کے  سایہ  دار  درخت

ٹھنڈی   ٹھنڈی   ہوائیں   آتی  تھیں
طائروں   کی   صدائیں  آتی  تھیں

کسی   ندی  کے  پاس  اک  بکری
چرتے  چرتے  کہیں  سے  آ نکلی

جب   ٹھہر  کر  ادھر  ادھر  دیکھا
پاس   اک   گائے   کو  کھڑے  پایا

پہلے   جھک  کر  اسے  سلام  کیا
پھر   سلیقے   سے  یوں  کلام  کیا

کیوں  بڑی  بی!  مزاج  کیسے ہیں
گائے   بولی  کہ  خیر  اچھے  ہیں

کٹ   رہی   ہے   بری  بھلی  اپنی
ہے   مصیبت   میں   زندگی  اپنی

جان  پر  آ  بنی  ہے  ،  کیا  کہیے
اپنی  قسمت  بری  ہے ، کیا کہیے

دیکھتی  ہوں  خدا  کی شان کو میں
رو رہی ہوں بروں کی جان کو میں

زور    چلتا    نہیں    غریبوں   کا
پیش     آیا    لکھا    نصیبوں    کا

آدمی   سے   کوئی  بھلا  نہ  کرے
اس  سے  پالا پڑے ، خدا نہ کرے

دودھ   کم   دوں   تو   بڑبڑاتا  ہے
ہوں  جو  دبلی  تو  بیچ  کھاتا  ہے

ہتھکنڈوں   سے   غلام   کرتا  ہے
کن   فریبوں   سے  رام  کرتا  ہے

اس  کے  بچوں  کو پالتی ہوں میں
دودھ   سے  جان  ڈالتی  ہوں  میں

بدلے   نیکی   کے  یہ  برائی  ہے
میرے    اللہ!    تری    دہائی   ہے

سن   کے   بکری  یہ  ماجرا  سارا
بولی    ،    ایسا   گلہ   نہیں   اچھا

بات   سچی   ہے   بے  مزا  لگتی
میں   کہوں   گی  مگر  خدا  لگتی

یہ  چراگہ  ،  یہ  ٹھنڈی  ٹھنڈی ہوا
یہ    ہری   گھاس   اور   یہ   سایا

ایسی  خوشیاں  ہمیں  نصیب  کہاں
یہ  کہاں  ،  بے زباں غریب کہاں!

یہ  مزے  آدمی  کے  دم  سے  ہیں
لطف  سارے اسی کے دم سے ہیں

اس  کے  دم  سے  ہے  اپنی آبادی
قید   ہم   کو   بھلی   ،  کہ  آزادی!

سو  طرح  کا  بنوں میں ہے کھٹکا
واں  کی  گزران  سے  بچائے خدا

ہم   پہ   احسان   ہے   بڑا  اس  کا
ہم   کو   زیبا   نہیں   گلا   اس  کا

قدر     آرام    کی    اگر    سمجھو
آدمی    کا    کبھی   گلہ   نہ   کرو

گائے   سن   کر  یہ  بات  شرمائی
آدمی   کے   گلے   سے   پچھتائی

دل  میں  پرکھا  بھلا  برا  اس  نے
اور  کچھ  سوچ  کر  کہا  اس  نے

یوں  تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل  کو  لگتی  ہے  بات بکری کی
مکمل تحریر اور تبصرے>>

دعا


لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جاے
ہر جگہ میرے چمکنے سےاجالا ہو جاے

ہو میرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت

زندگی ہو میری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب

ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا

میرے اللہ براٴیی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس راہ پہ چلانا مجھ کو

مکمل تحریر اور تبصرے>>

ہمدردی


بلبل

(ماخوذ از ولیم کوپر)
بچوں کے لیے

ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا

کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی
اُڑنے چگنے میں دن گزارا

پہنچوں‌ کس طرح آشیاں تک
ہرچیز پہ چھا گیا اندھیرا

سُن کے بلبل کی آہ وزاری
جگنو کوئی پاس ہی سے بولا

حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے
کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا

کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
میں راہ میں روشنی کروں گا

اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے دیا بنایا

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے

مکمل تحریر اور تبصرے>>

ماں کا خواب




(ماخو ذ) 
بچوں کے لیے 

میں سوئی جو اِک شب تو دیکھا یہ خواب 
بڑھا اور جس سے مِرا اِضطراب 

یہ دیکھا، کہ میں جا رہی ہوں کہیں 
اندھیرا ہے اور راہ مِلتی نہیں 

لرزتا تھا ڈر سے مِرا بال بال 
قدم کا تھا دہشت سے اُٹھنا محال 

جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی 
تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی 

زمرد سی پوشاک پہنے ہوئے 
دِیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے 

وہ چپ چاپ تھے آگے پیچھے رَواں 
خُدا جانے، جانا تھا اُن کو کہاں 

اِسی سوچ میں تھی کہ، میرا پسر 
مجھے اُس جماعت میں آیا نظر 

وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا 
دِیا اُس کے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا 

کہا میں نے پہچان کر ، میری جاں! 
مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں 

جُدائی میں رہتی ہُوں میں بے قرار 
پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار 

نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی 
گئے چھوڑ ، اچھی وفا تم نے کی 

جو بچے نے دیکھا مِرا پیچ و تاب 
دِیا اُس نے منہ پھیر کر یُوں جواب 

رُلاتی ہے تُجھ کو جُدائی مِری 
نہیں اِس میں کچُھ بھی بَھلائی مِری 

یہ کہہ کر وہ کچُھ دیر تک چپ رہا 
دِیا پھر دِکھا کر یہ کہنے لگا 

سمجھتی ہے تُو، ہو گیا کیا اِسے؟ 
تِرے آنسوؤں نے بُجھایا اِسے

مکمل تحریر اور تبصرے>>

پرندے کی فریاد

بچوں کے لیے

پرنده


آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا

آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا

لگتی ہے چوٹ دل پر آتا یاد جس دم
شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا

وہ پیاری پیاری صورت وہ کامنی سی مورت
آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانہ

آتی نہیں صدائیں اس کی مرے قفس میں
ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں

کیا بد نصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں
ساتھی تو ہیں وطن میں، مَیں قید میں پڑا ہوں

آئی بہار کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں
میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں

اس قید کا الٰہی  دکھڑا کسے سناؤں
ڈر ہے یہیں قفس میں، مَیں غم سے مر نہ جاؤں

جب سے چمن چھٹا ہے یہ حال ہو گیا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے ، غم دل کو کھا رہا ہے

گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دکھتے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے

آزاد مجھ کو کر دے،  او قید کرنے والے
میں بے زباں ہوں قیدی ، تُو چھوڑ کر دعا لے


مکمل تحریر اور تبصرے>>

خفتگان خاک سے استفسار


مہر روشن چھپ گیا ، اٹھی نقاب روئے شام 
شانۂ ہستی پہ ہے بکھرا ہوا گیسوئے شام 

یہ سیہ پوشی کی تیاری کس کے غم میں ہے 
محفل قدرت مگر خورشید کے ماتم میں ہے 

کر رہا ہے آسماں جادو لب گفتار پر 
ساحر شب کی نظر ہے دیدۂ بیدار پر 

غوطہ زن دریاۓ خاموشی میں ہے موج ہوا 
ہاں ، مگر اک دور سے آتی ہے آواز درا 

دل کہ ہے بے تابئ الفت میں دنیا سے نفور 
کھنچ لایا ہے مجھے ہنگامۂ عالم سے دور 

منظر حرماں نصیبی کا تماشائی ہوں میں 
ہم نشین خفتگان کنج تنہائی ہوں میں 

تھم ذرا بے تابی دل! بیٹھ جانے دے مجھے 
اور اس بستی پہ چار آ نسو گرانے دے مجھے 

اے مے غفلت کے سر مستو ، کہاں رہتے ہو تم 
کچھ کہو اس دیس کی آ خر ، جہاں رہتے ہو تم 

وہ بھی حیرت خانۂ امروز و فردا ہے کوئی؟ 
اور پیکار عناصر کا تماشا ہے کوئی؟ 

آدمی واں بھی حصار غم میں ہے محصور کیا؟ 
اس ولا یت میں بھی ہے انساں کا دل مجبور کیا؟

واں بھی جل مرتا ہے سوز شمع پر پروانہ کیا؟ 
اس چمن میں بھی گل و بلبل کا ہے افسانہ کیا؟ 

یاں تو اک مصرع میں پہلو سے نکل جاتا ہے دل 
شعر کی گر می سے کیا واں بھی پگل جاتاہے دل؟ 

رشتہ و پیوند یاں کے جان کا آزار ہیں 
اس گلستاں میں بھی کیا ایسے نکیلے خار ہیں؟ 

اس جہاں میں اک معیشت اور سو افتاد ہے 
روح کیا اس دیس میں اس فکر سے آزاد ہے؟ 

کیا وہاں بجلی بھی ہے ، دہقاں بھی ہے ، خرمن بھی ہے؟ 
قافلے والے بھی ہیں ، اندیشۂ رہزن بھی ہے؟ 

تنکے چنتے ہیں و ہاں بھی آ شیاں کے واسطے؟ 
خشت و گل کی فکر ہوتی ہے مکاں کے واسطے؟ 

واں بھی انساں اپنی اصلیت سے بیگانے ہیں کیا؟ 
امتیاز ملت و آئیں کے دیوانے ہیں کیا؟ 

واں بھی کیا فریاد بلبل پر چمن روتا نہیں؟ 
اس جہاں کی طرح واں بھی درد دل ہوتا نہیں؟ 

باغ ہے فردوس یا اک منزل آرام ہے؟ 
یا رخ بے پردۂ حسن ازل کا نام ہے؟ 

کیا جہنم معصیت سوزی کی اک ترکیب ہے؟ 
آگ کے شعلوں میں پنہاں مقصد تاویب ہے؟ 

کیا عوض رفتار کے اس دیس میں پرواز ہے؟ 
موت کہتے ہیں جسے اہل زمیں ، کیا راز ہے ؟ 

اضطراب دل کا ساماں یاں کی ہست و بود ہے 
علم انساں اس ولایت میں بھی کیا محدود ہے؟ 

دید سے تسکین پاتا ہے دل مہجور بھی؟ 
'لن ترانی' کہہ رہے ہیں یا وہاں کے طور بھی؟ 

جستجو میں ہے وہاں بھی روح کو آرام کیا؟ 
واں بھی انساں ہے قتیل ذوق استفہام کیا؟ 

آہ! وہ کشور بھی تاریکی سے کیا معمور ہے؟ 
یا محبت کی تجلی سے سراپا نور ہے؟ 

تم بتا دو راز جو اس گنبد گرداں میں ہے 
موت اک چبھتا ہوا کانٹا دل انساں میں ہے
مکمل تحریر اور تبصرے>>

شمع و پروانہ




پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع پیار کیوں
یہ جان بے قرار ہے تجھ پر نثار کیوں

سیماب وار رکھتی ہے تیری ادا اسے
آداب عشق تو نے سکھائے ہیں کیا اسے؟

کرتا ہے یہ طواف تری جلوہ گاہ کا
پھونکا ہوا ہے کیا تری برق نگاہ کا؟

آزار موت میں اسے آرام جاں ہے کیا؟
شعلے میں تیرے زندگی جاوداں ہے کیا؟

غم خانۂ جہاں میں جو تیری ضیا نہ ہو
اس تفتہ دل کا نخل تمنا ہرا نہ ہو

گرنا ترے حضور میں اس کی نماز ہے
ننھے سے دل میں لذت سوز و گداز ہے

کچھ اس میں جوش عاشق حسن قدیم ہے
چھوٹا سا طور تو یہ ذرا سا کلیم ہے

پروانہ ، اور ذوق تماشائے روشنی
کیڑا ذرا سا ، اور تمنائے روشنی

مکمل تحریر اور تبصرے>>

عقل و دل


(نظم)
غنچه رز

عقل نے ايک دن يہ دل سے کہا
بھولے بھٹکے کي رہنما ہوں ميں

ہوں زميں پر ، گزر فلک پہ مرا
ديکھ تو کس قدر رسا ہوں ميں

کام دنيا ميں رہبري ہے مرا
مثل خضر خجستہ پا ہوں ميں

ہوں مفسر کتاب ہستي کي
مظہر شان کبريا ہوں ميں

بوند اک خون کي ہے تو ليکن
غيرت لعل بے بہا ہوں ميں

دل نے سن کر کہا يہ سب سچ ہے
پر مجھے بھي تو ديکھ ، کيا ہوں ميں

راز ہستي کو تو سمجھتي ہے
اور آنکھوں سے ديکھتا ہوں ميں

ہے تجھے واسطہ مظاہر سے
اور باطن سے آشنا ہوں ميں

علم تجھ سے تو معرفت مجھ سے
تو خدا جو ، خدا نما ہوں ميں

علم کي انتہا ہے بے تابي
اس مرض کي مگر دوا ہوں ميں

شمع تو محفل صداقت کي
حسن کي بزم کا ديا ہوں ميں

تو زمان و مکاں سے رشتہ بپا
طائر سدرہ آشنا ہوں ميں

کس بلندي پہ ہے مقام مرا
عرش رب جليل کا ہوں ميں

مکمل تحریر اور تبصرے>>

صدائے درد


جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے
ہاں ڈبو دے اے محیط آب گنگا تو مجھے

سرزمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے
وصل کیسا ، یاں تو اک قرب فراق انگیز ہے

بدلے یک رنگی کے یہ نا آشنائی ہے غضب
ایک ہی خرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب

جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آئی نہیں
اس چمن میں کوئی لطف نغمہ پیرائی نہیں

لذت قرب حقیقی پر مٹا جاتا ہوں میں
اختلاط موجہ و ساحل سے گھبراتا ہوں میں

دانۂنم خرمن نما ہے شاعر معجز بیاں
ہو نہ خرمن ہی تو اس دانے کی ہستی پھر کہاں

حسن ہو کیا خود نما جب کوئی مائل ہی نہ ہو
شمع کو جلنے سے کیا مطلب جو محفل ہی نہ ہو

ذوق گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں
میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں

کب زباں کھولی ہماری لذت گفتار نے!
پھونک ڈالا جب چمن کو آتش پیکار نے
مکمل تحریر اور تبصرے>>

آفتاب


ترجمہ گايتري

اے آفتاب! روح و روان جہاں ہے تو 
شيرازہ بند دفتر کون و مکاں ہے تو 

باعث ہے تو وجود و عدم کي نمود کا 
ہے سبز تيرے دم سے چمن ہست و بود کا

قائم يہ عنصروں کا تماشا تجھي سے ہے 
ہر شے ميں زندگي کا تقاضا تجھي سے ہے

 ہر شے کو تيري جلوہ گري سے ثبات ہے 
تيرا يہ سوز و ساز سراپا حيات ہے 

وہ آفتاب جس سے زمانے ميں نور ہے 
دل ہے ، خرد ہے ، روح رواں ہے ، شعور ہے 

اے آفتاب ، ہم کو ضيائے شعور دے 
چشم خرد کو اپني تجلي سے نور دے 

ہے محفل وجود کا ساماں طراز تو 
يزدان ساکنان نشيب و فراز تو 

تيرا کمال ہستي ہر جاندار ميں 
تيري نمود سلسلہ کوہسار ميں 

ہر چيز کي حيات کا پروردگار تو 
زائيدگان نور کا ہے تاجدار تو 

نے ابتدا کوئي نہ کوئي انتہا تري 
آزاد قيد اول و آخر ضيا تري 

مکمل تحریر اور تبصرے>>

شمع

بزم جہاں میں میں بھی ہوں اے شمع! دردمند
فریاد در گرہ صفت دانۂ سپند

دی عشق نے حرارت سوز دروں تجھے
اور گل فروش اشک شفق گوں کیا مجھے

ہو شمع بزم عیش کہ شمع مزار تو
ہر حال اشک غم سے رہی ہمکنار تو

یک بیں تری نظر صفت عاشقان راز
میری نگاہ مایۂ آشوب امتیاز

کعبے میں ، بت کدے میں ہے یکساں تری ضیا
میں امتیاز دیر و حرم میں پھنسا ہوا

ہے شان آہ کی ترے دود سیاہ میں
پوشیدہ کوئی دل ہے تری جلوہ گاہ میں؟

جلتی ہے تو کہ برق تجلی سے دور ہے
بے درد تیرے سوز کو سمجھے کہ نور ہے

تو جل رہی ہے اور تجھے کچھ خبر نہیں
بینا ہے اور سوز دروں پر نظر نہیں

میں جوش اضطراب سے سیماب وار بھی
آگاہ اضطراب دل بے قرار بھی

تھا یہ بھی کوئی ناز کسی بے نیاز کا
احساس دے دیا مجھے اپنے گداز کا

یہ آگہی مری مجھے رکھتی ہے بے قرار
خوابیدہ اس شرر میں ہیں آتش کدے ہزار

یہ امتیاز رفعت و پستی اسی سے ہے
گل میں مہک ، شراب میں مستی اسی سے ہے

بستان و بلبل و گل و بو ہے یہ آگہی
اصل کشاکش من و تو ہے یہ آگہی

صبح ازل جو حسن ہوا دلستان عشق
آواز 'کن' ہوئی تپش آموز جان عشق

یہ حکم تھا کہ گلشن 'کن' کی بہار دیکھ
ایک آنکھ لے کے خواب پریشاں ہزار دیکھ

مجھ سے خبر نہ پوچھ حجاب وجود کی
شام فراق صبح تھی میری نمود کی

وہ دن گئے کہ قید سے میں آشنا نہ تھا
زیب درخت طور مرا آشیانہ تھا

قیدی ہوں اور قفس کو چمن جانتا ہوں میں
غربت کے غم کدے کو وطن جانتا ہوں میں

یاد دطن فسردگی بے سبب بنی
شوق نظر کبھی ، کبھی ذوق طلب بنی

اے شمع! انتہائے فریب خیال دیکھ
مسجود ساکنان فلک کا مآل دیکھ

مضموں فراق کا ہوں ، ثریا نشاں ہوں میں
آہنگ طبع ناظم کون و مکاں ہوں میں

باندھا مجھے جو اس نے تو چاہی مری نمود
تحریر کر دیا سر دیوان ہست و بود

گوہر کو مشت خاک میں رہنا پسند ہے
بندش اگرچہ سست ہے ، مضموں بلند ہے

چشم غلط نگر کا یہ سارا قصور ہے
عالم ظہور جلوۂ ذوق شعور ہے

یہ سلسلہ زمان و مکاں کا ، کمند ہے
طوق گلوئے حسن تماشا پسند ہے

منزل کا اشتیاق ہے ، گم کردہ راہ ہوں
اے شمع ! میں اسیر فریب نگاہ ہوں

صیاد آپ ، حلقۂ دام ستم بھی آپ
بام حرم بھی ، طائر بام حرم بھی آپ!

میں حسن ہوں کہ عشق سراپا گداز ہوں
کھلتا نہیں کہ ناز ہوں میں یا نیاز ہوں

ہاں ، آشنائے لب ہو نہ راز کہن کہیں
پھر چھڑ نہ جائے قصۂ دار و رسن کہیں

مکمل تحریر اور تبصرے>>