تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم 
گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوب کلیم 

عقل عیار ہے ، سو بھیس بنا لیتی ہے 
عشق بے چارہ نہ ملا ہے نہ زاہد نہ حکیم!

عیش منزل ہے غریبان محبت پہ حرام 
سب مسافر ہیں ، بظاہر نظر آتے ہیں مقیم 

ہے گراں سیر غم راحلہ و زاد سے تو 
کوہ و دریا سے گزر سکتے ہیں مانند نسیم 

مرد درویش کا سرمایہ ہے آزادی و مرگ 
ہے کسی اور کی خاطر یہ نصاب زر و سیم