اہل ہنر سے


مہر و مہ و مشتری ، چند نفس کا فروغ 
عشق سے ہے پائدار تیری خودی کا وجود 

تیرے حرم کا ضمیر اسود و احمر سے پاک 
ننگ ہے تیرے لیے سرخ و سپید و کبود 

تیری خودی کا غیاب معرکۂ ذکر و فکر 
تیری خودی کا حضور عالم شعر و سرود 

روح اگر ہے تری رنج غلامی سے زار 
تیرے ہنر کا جہاں دیر و طواف و سجود 

اور اگر باخبر اپنی شرافت سے ہو 
تیری سپہ انس و جن ، تو ہے امیر جنود