فرمان خدا



(فرشتوں سے)

اٹھو ! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو 
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو

گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے 
کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو 

سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ 
جو نقش کہن تم کو نظر آئے ، مٹا دو 

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی 
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو 

کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے 
پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو 

حق را بسجودے ، صنماں را بطوافے 
بہتر ہے چراغ حرم و دیر بجھا دو 

میں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے 
میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو 

تہذیب نوی کار گہ شیشہ گراں ہے 
آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو