فرشتوں کا گیت


عقل ہے بے زمام ابھی ، عشق ہے بے مقام ابھی 
نقش گر ، ازل! ترا نقش ہے نا تمام ابھی

خلق خدا کی گھات میں رند و فقیہ و میر و پیر 
تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح و شام ابھی 

تیرے امیر مال مست ، تیرے فقیر حال مست 
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی ، خواجہ بلند بام ابھی 

دانش و دین و علم و فن بندگی ہوس تمام 
عشق گرہ کشاۓ کا فیض نہیں ہے عام ابھی 

جوہر زندگی ہے عشق ، جوہر عشق ہے خودی 
آہ کہ ہے یہ تیغ تیز پردگی نیام ابھی!