سيدکی لوح تربت


اے کہ تيرا مرغ جاں تار نفس ميں ہے اسير
اے کہ تيری روح کا طائر قفس ميں ہے اسير

اس چمن کے نغمہ پيراؤں کی آزادی تو ديکھ
شہر جو اجﮍا ہوا تھا اس کی آبادی تو ديکھ

فکر رہتی تھی مجھے جس کی وه محفل ہے يہی
صبر و استقالل کی کھيتی کا حاصل يہی

سنگ تربت ہے مرا گرويده تقرير ديکھ
چشم باطن سے ذرا اس لوح کی تحرير ديکھ

مدعا تيرا اگر دنيا ميں ہے تعليم ديں
ترک دنيا قوم کو اپنی نہ سکھالنا کہيں

وا نہ کرنا فرقہ بندی کے ليے اپنی زباں
چھپ کے ہے بيٹھا ہوا ہنگامۂ محشر يہاں

وصل کے اسباب پيدا ہوں تری تحرير سے
ديکھ کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقرير سے

محفل نو ميں پرانی داستانوں کو نہ چھيﮍ
رنگ پر جو اب نہ آئيں ان فسانوں کو نہ چھيﮍ

تو اگر کوئی مدبر ہے تو سن ميری صدا
ہے دليری دست ارباب سياست کا عصا

عرض مطلب سے جھجک جانا نہيں زيبا تجھے
نيک ہے نيت اگر تيری تو کيا پروا تجھے

بندۀ مومن کا دل بيم و ريا سے پاک ہے
قوت فرماں روا کے سامنے بے باک ہے

ہو اگر ہاتھوں ميں تيرے خامۂ معجز رقم
شيشۂ دل ہو اگر تيرا مثال جام جم

پاک رکھ اپنی زباں ، تلميذ رحمانی ہے تو
ہو نہ جائے ديکھنا تيری صدا بے آبرو!

سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے
خرمن باطل جال دے شعلۂ آواز س