ٹوٹ کر خورشيد کی کشتی ہوئی غرقاب نيل
ايک ٹکرا تيرتا پھرتا ہے روئے آب نيل
طشت گردوں ميں ٹپکتا ہے شفق کا خون ناب
نشتر قدرت نے کيا کھولی ہے فصد آفتاب
چرخ نے بالی چرا لی ہے عروس شام کی
نيل کے پانی ميں يا مچھلی ہے سيم خام کی
قافلہ تيرا رواں بے منت بانگ درا
گوش انساں سن نہيں سکتا تری آواز پا
گھٹنے بڑھنے کا سماں آنکھوں کو دکھالتا ہے تو
ہے وطن تيرا کدھر ، کس ديس کو جاتا ہے تو
ساتھ اے سيارۀ ثابت نما لے چل مجھے
خار حسرت کی خلش رکھتی ہے اب بے کل مجھے
نور کا طالب ہوں ، گھبراتا ہوں اس بستی ميں ميں
طفلک سيماب پا ہوں مکتب ہستی ميں ميں