صبح خورشيد درخشاں کو جو ديکھا ميں نے
بزم معمورۀ ہستی سے يہ پوچھا ميں نے
پر تو مہر کے دم سے ہے اجاال تيرا
سيم سيال ہے پانی ترے درياؤں کا
مہر نے نور کا زيور تجھے پہنايا ہے
تيری محفل کو اسی شمع نے چمکايا ہے
گل و گلزار ترے خلد کی تصويريں ہيں
يہ سبھی سورۀ "والشمس" کی تفسيريں ہيں
سرخ پوشاک ہے پھولوں کی ، درختوں کی ہری
تيری محفل ميں کوئی سبز ، کوئی الل پری
ہے ترے خيمۂ گردوں کی طالئی جھالر
بدلياں الل سی آتی ہيں افق پر جو نظر
کيا بھلی لگتی ہے آنکھوں کو شفق کی اللی
مے گلرنگ خم شام ميں تو نے ڈالی
رتبہ تيرا ہے بﮍا ، شان بﮍی ہے تيری
پردۀ نور ميں مستور ہے ہر شے تيری
صبح اک گيت سراپا ہے تری سطوت کا
زير خورشيد نشاں تک بھی نہيں ظلمت کا
ميں بھی آباد ہوں اس نور کی بستی ميں مگر
جل گيا پھر مری تقدير کا اختر کيونکر؟
نور سے دور ہوں ظلمت ميں گرفتار ہوں ميں
کيوں سيہ روز ، سيہ بخت ، سيہ کار ہوں ميں؟
ميں يہ کہتا تھا کہ آواز کہيں سے آئی
بام گردوں سے وه يا صحن زميں سے آئی
ہے ترے نور سے وابستہ مری بود و نبود
باغباں ہے تری ہستی پے گلزار وجود
انجمن حسن کی ہے تو ، تری تصوير ہوں ميں
عشق کا تو ہے صحيفہ ، تری تفسير ہوں ميں
ميرے بگﮍے ہوئے کاموں کو بنايا تو نے
بار جو مجھ سے نہ اٹھا وه اٹھايا تو نے
نور خورشيد کی محتاج ہے ہستی ميری
اور بے منت خورشيد چمک ہے تری
ہو نہ خورشيد تو ويراں ہو گلستاں ميرا
منزل عيش کی جا نام ہو زنداں ميرا
آه اے راز عياں کے نہ سمجھے والے!
حلقۂ دام تمنا ميں الجھنے والے
ہائے غفلت کہ تری آنکھ ہے پابند مجاز
ناز زيبا تھا تجھے ، تو ہے مگر گرم نياز
تو اگر اپنی حقيقت سے خبردار رہے
نہ سيہ روز رہے پھر نہ سيہ کار رہے