پيا م صبح


( ماخوذ از النگ فيلو)


اجالا جب ہوا رخصت جبين شب کی افشاں کا
نسيم زندگی پيغام الئی صبح خنداں کا

جگايا بلبل رنگيں نوا کو آشيانے ميں
کنارے کھيت کے شانہ ہاليا اس نے دہقاں کا

طلسم ظلمت شب سورۀ والنور سے توڑا
اندھيرے ميں اڑايا تاج زر شمع شبستاں کا

پڑھا خوابيدگان دير پر افسون بيداری
برہمن کو ديا پيغام خورشيد درخشاں کا

ہوئی بام حرم پر آ کے يوں گويا مؤذن سے
نہيں کھٹکا ترے دل ميں نمود مہر تاباں کا؟

پکاری اس طرح ديوار گلشن پر کھﮍے ہو کر
چٹک او غنچۂ گل! تو مؤذن ہے گلستاں کا

ديا يہ حکم صحرا ميں چلو اے قافلے والو!
چمکنے کو ہے جگنو بن کے ہر ذره بياباں کا

سوئے گور غريباں جب گئی زندوں کی بستی سے
تو يوں بولی نظارا ديکھ کر شہر خموشاں کا

ابھی آرام سے ليٹے رہو ، ميں پھر بھی آؤں گی
سالدوں گی جہاں کو خواب سے تم کو جگاؤں گی