تاتاری کا خواب



خوشحال خاں خٹک پشتو زبان کا مشہور وطن دوست شاعر تھا جس نے افغانستان کو مغلوں سے آزاد کرانے کے لیے سرحد کے افغانی قبائل کی ایک جمعیت قائم کی -قبائل میں صرف آفریدیوں نے آخر دم تک اس کا ساتھ دیا- اس کی قریباً ایک سو نظموں کا انگریزی ترجمہ 1862ء میں لندن میں شائع ہوا تھا

کہیں سجادہ و عمامہ رہزن 
کہیں ترسا بچوں کی چشم بے باک! 

ردائے دین و ملت پارہ پارہ 
قبائے ملک و دولت چاک در چاک! 

مرا ایماں تو ہے باقی ولیکن 
نہ کھا جائے کہیں شعلے کو خاشاک! 

ہوائے تند کی موجوں میں محصور 
سمرقند و بخارا کی کف خاک! 

'بگرداگرد خود چندانکہ بینم 
بلا انگشتری و من نگینم ' 

یکایک ہل گئی خاک سمرقند 
اٹھا تیمور کی تربت سے اک نور 

شفق آمیز تھی اس کی سفیدی 
صدا آئی کہ ''میں ہوں روح تیمور 

اگر محصور ہیں مردان تاتار 
نہیں اللہ کی تقدیر محصور 

تقاضا زندگی کا کیا یہی ہے 
کہ تورانی ہو تورانی سے مہجور؟ 

'خودی را سوز و تابے دیگرے دہ 
جہاں را انقلابے دیگرے دہ''