آہ یہ مرگ دوام، آہ یہ رزم حیات
ختم بھی ہوگی کبھی کشمکش کائنات!
عقل کو ملتی نہیں اپنے بتوں سے نجات
عارف و عامی تمام بندۂ لات و منات
خوار ہوا کس قدر آدم یزداں صفات
قلب و نظر پر گراں ایسے جہاں کا ثبات
کیوں نہیں ہوتی سحر حضرت انساں کی رات؟